انشورنس (بیمہ)کی تاریخ اور اہمیت

انشورنس (بیمہ)کی تاریخ اور اہمیت

انشورنس (بیمہ)کی تاریخ اور اہمیت

انشورنس (بیمہ) بنیادی طور پر رسک مینجمنٹ کا ایک اہم جز ہوتا ہے جس کا بندوبست مستقبل میں ہونے والے غیر یقینی مالی نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔ کسی بھی مالیاتی ادارے کیلئے انشورنس ڈپارٹمنٹ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے جس کے ذریعے مستقبل قریب میں ہونے والے مالی نقصان کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ انشورنس پالیسی ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں انشورنس کمپنی پالیسی ہولڈر سے ایک خاص مدت کے دوران چند طے شدہ شرائط اور مخصوص واقعات رونما ہونے پر نقصان کی صورت میں طے شدہ رقم اداکرنے کا وعدہ کرتی ہے۔اس انشورنس پالیسی کو خریدنے کیلئے پالیسی ہولڈر طے شدہ رقم ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر اداکرتا ہے جسے پریمیم کہا جاتا ہے۔ کسی بھی انشورنس شدہ واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں پالیسی ہولڈر اپنے مالی نقصان کا کلیم جمع کراتا ہے جس پر انشورنس کمپنی نقصان کی تصدیق کے بعد طے شدہ رقم پالیسی ہولڈر کو ادا کرتی ہے ۔
اگر ہم انشورنس کو تاریخ کے آئینے میں دیکھیں تو ہمیں اس کی ابتداء کا حوالہ دوسری اور تیسری دہائی میں چائنہ کے قدیم دور کی تجارت سے ملتا ہے۔ تاجروں کے ایک گروپ میں تمام لوگ مل کر ایک مخصوص رقم (پریمیم)جمع کرتے تھے اور تجارتی سامان کی ترسیل کے دوران اگر کسی تاجر کے سامان کو نقصان ہونے کی صورت میں تمام تاجروں کی جانب سے جمع شدہ رقم سے اس نقصان کو پورا کیا جاتا تھا۔ باقاعدہ طور پر انشورنس کا معاہدہ جنیوا کی ایجاد ہے جہاں پہلی انشورنس پالیسی سن1347 ؁ء میں جاری ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی چودھویں صدی میں بحری جہازوں کی انشورنس ہونے لگی جس میں مختلف خطرات کیلئے مختلف پریمیم مقرر تھا۔
وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف خطرات سے نمٹنے کیلئے نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے انشورنس کی مختلف اقسام سامنے آئیں۔ سن 1666 ؁ء میں لندن میں لگنے والی آگ 13000گھروں کو کھا گئی جس کے بعد الیون ایسوسی ایٹس نے پہلی فائر انشورنس کمپنی “دفتر انشورنس برائے مکانات”متعارف کرائی جس نے شروعات میں ہی 5000گھروں کی انشورنس پالیسی جاری کی۔ اسی طرح زندگی کی پہلی انشورنس پالیسی اٹھارویں صدی میں “ایمی کیبل سوسائٹی آف پرپیچول اشورنس آفس” نے جاری کی۔ یہ دنیا کی پہلی Mutual Insurerکمپنی تھی جس نے شرح اموات کو مدِنظر رکھتے ہوئے مختلف عمر کے لوگوں کے لیے مختلف پریمیم کی بنیادوں پر ماڈرن لائف اشورنس کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح انیسویں صدی میں انگلینڈ میں ریلوے کے نظام کے سبب جنم لینے والی ہلاکتوں کو دیکھتے ہوئے “ریلوے پیسنجرز اشورنس کمپنی” پہلی کمپنی ہے جس نے “ایکسیڈنٹ انشورنس کو متعارف کرایا۔
جرمنی نے بھی انیسویں صدی میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے انشورنس کی بنیاد پر اولڈ ایج پینشن، میڈیکل کیئر اور ایکسیڈنٹ انشورنس کا آغاز کیا۔برطانیہ نے 1911 ؁ء میں اسے مزید وسیع قوانین کی شکل دیتے ہوئے نیشنل انشورنس ایکٹ متعارف کرایا۔اس ایکٹ نے برطانوی کام کرنے والے طبقات میں بیماری اور بے روزگاری کے خطرات کیلئے انشورنس کا ایک پہلا نظام دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس نظام میں توسیع ہوئی جس نے ماڈرن فلاحی ریاست کے تصور کی بنیاد رکھنے میں مدد کی۔
جدید انشورنس کے طریقہ کار سے نہ صرف مالیاتی ادارے فائدہ اٹھا سکتے ہیں بلکہ سوسائٹی پر بھی اسکے مختلف مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مختلف مالیاتی ادارے بالخصوص بینک انشورنس کو خاص اہمیت دیتے ہوئے اپنے تمام اثاثوں کو انشور کراتے ہیں اور انشورنس کمپنی کے اشتراک سے اپنے قرض خواہوں کی فلاح و بہبود کیلئے بھی مختلف انشورنس کور فراہم کرتے ہیں جن میں ہیلتھ انشورنس، لائف انشورنس، فصلوں کی انشورنس، لائیو اسٹاک انشورنس و دیگر شامل ہیں۔

الیکٹرانک بینکینگ

الیکٹرانک بینکینگ

الیکٹرانک بینکینگ

انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بہت تیزی سے ترقی ہو رہی ہے جس کی باعث دنیا کی ہر صنعت میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ اگر ہم مالیاتی اداروں کی بات کریں تو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے باعث عالمی مالیاتی اداروں کے مابین بھی مقابلے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کسی بھی بینک میں الیکٹرانک بینکنگ کا شعبہ دورِ جدید کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ای بینکنگ بنیادی طور پر ایک ایسا طریقہ کار ہے جسکی بدولت بینک کا کسٹمر اپنے اکاؤنٹ سے کوئی بھی ٹرانزکشن بذریعہ انٹرنیٹ کر سکتا ہے۔ الیکٹرانک بینکاری کو آن لائن بینکاری، موبائل بینکاری، ورچوئل بینکاری اور دیگر مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ای بینکنگ کے معروف پروڈکٹس میں ATM، ڈیبٹ کارڈ اور کریڈٹ کارڈ وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان میں الیکٹرانک بینکنگ 1990 ؁ء کے آخر میں متعارف کرائی گئی جس کی وجہ سے گاہک اور کاروبار کے اعتبار سے بینکنگ صنعت میں انقلابی تبدیلیاں آئیں۔پاکستان میں زیادہ تر لوگ ای بینکنگ کا شعور نہیں رکھتے تھے البتہ 2008 ؁ء سے 2009 ؁ء کے دوران لوگوں کا ای بینکنگ اور برانچ لیس بینکنگ کی جانب کافی رحجان رہا ہے۔
ای بینکنگ سے بینک کے کسٹمر کو کافی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ پہلے بینک کے کسٹمر کو کسی بھی قسم کی معلومات کے حصول کیلئے بینک میں آنا ضروری ہوتا تھا جبکہ اب بینک کا کسٹمر کسی بھی جگہ بیٹھے اپنے موبائل یا لیپ ٹاپ کے ذریعے نہ صرف بینک کے پراڈکٹس کی معلو مات حاصل کر سکتا ہے بلکہ بینک کی آن لائن سہولیات سے استفادہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔اب آپکو لمبی قطاروں میں ٹھہرنے کی ضرورت درپیش نہیں آتی اور نہ ہی بینکنگ سہولیات تک رسائی کیلئے بینکنگ اوقات کے مطابق اپنے شیڈول میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ آپ دنیا کی کسی بھی جگہ سے اپنے اکاؤنٹ کا سٹیٹس چیک کر سکتے ہیں۔ای بینکنگ کی بدولت جہاں اپنے اکاؤنٹ کی نگرانی، بلوں کی ادائیگی اور رقم کی منتقلی کا طریقہ کار آسان ہو گیا ہے وہاں اس سے غیر ضروری کاغذی کاروائی اور وقت کی بھی بچت ہوتی ہے جو کہ سب سے زیادہ اہم ہے۔
اب بینک کا کسٹمر صرف ایک بٹن کے کلک سے بینک کی تمام تر خدمات و سہولیات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ وہ تمام کسٹمر جو کہ آن لائن بینکنگ سے آگاہ ہیں وہ ہمیشہ ای بینکنگ کو ترجیح دیتے ہیں دوسری جانب مالیاتی ادارے بھی اپنے کسٹمر کو بہتر اور محفوظ آن لائن سہولیات دینے کیلئے کوشاں ہیں جسکی وجہ سے بینکنگ صنعت میں بھی مقابلے کی فضا قائم ہے۔جہاں آن لائن سہولیات کے باعث بینک کے کسٹمر کیلئے بے حد آسانیاں پیدا ہوئی ہیں دوسری جانب بینک کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے جس میں سب سے زیادہ خطرہ سیکورٹی کا ہے جو کہ کسی بھی مالیاتی ادارے کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔تمام مالیاتی ادارے بہتر سے بہترسیکورٹی کا طریقہ کار اپناتے ہیں تا کہ کوئی بھی غیر مجاز شخص بینک کے کسٹمر کی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔
ای بینکنگ کے فوائد اور اہمیت کے ساتھ ساتھ اس میں کمپیوٹر ناخواندگی اور تکنیکی تعطل جیسی کمیاں بھی ہیں جن سے گاہک کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تاہم، تمام مالیاتی ادارے کسٹمر کے اطمینان کیلئے ای بینکنگ کی سہولت کو بہتر سے بہتر بنانے اور تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں تاکہ کسٹمر کا بینک پر اعتماد قائم رہے۔